بے روزگاری کے اسباب اور ان کا حل

بے روزگاری کے اسباب اور ان کا حل

March 7, 2022 2 years ago No Comments

ذہنی صلاحیتوں کو منجمد کر دیا جائے تو بے روزگاری کا وجود نظر آتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ، انسان جب سوچنا چھوڑ دیتا ہے تب اس کا کام کرنا، بولنا، کمانا سب بے جا ہو جاتا ہے۔

    ذہن جب سوچتا ہے اس وقت مواقع ہی مواقع ہیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ ذہن کی خوراک کا خیال رکھیں گے۔ اب ذہن کی خوراک میں کیا آتا ہے؟ شعور آتا ہے، گُر آتے ہیں، جذبۂ  ایمانی آتا ہے۔

 

   بے روز گاری کی سب سے بڑی وجہ شعور کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، پڑھے لکھے کو ریڑھی لگاتا نہیں دیکھیں گے۔ پڑھے لکھے نے دماغ کو اسکی خوراک دی ہوتی ہے۔ اس لیے پڑھا لکھا انسان ایک تو ریڑھی لگائے گا نہیں، دوسرا اس کو یہ کام کرنا بھی پڑے تو وہ اس سے بھی اپنے کیے کئی راستے نکال لیتا ہے۔ ایک ریڑھی لگانے والے کو بھی شعور دیا جاتا تو وہ بھی کوئی عزت سے روزگار لئے بیٹھا ہوتا۔

   

اس کام کے لئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جانی چاہیئے۔ جو عوام میں نئے اور چھوٹے کاروبار کے فروغ کے لئے ٹریننگ اور آگاہی دے۔ جس ٹریننگ میں کم سے کم خرچے میں بھی ان کو ہنر کا استعمال کرنا سکھایا جا سکے۔ اب ایک تو یہ بات ہو گئی۔

  

  دوسری سائیڈ پر بات کر لیتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ، بے روزگاری دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جاتی ہے؟ کیوں لوگ پڑھ کر بھی اور نہ پڑھ کر بھی مناسب روزگار حاصل نہیں کر پاتے؟ کیوں غریب کا بچہ پڑھ نہیں پا رہا؟ کیوں پڑھے لکھے حضرات اپنی ڈگریوں کو ہاتھ میں تھامے ہوئے کئی کئی گھنٹے لائنوں میں ذلیل ہوتے ہیں کہ، کہیں کوئی انہیں کام پر رکھ لے۔

 

    آج کی جدید دنیا میں جب سائنس بام عروج پر ہے۔ انسان کی جگہ جدید مشینری آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال ہورہا ہے اور دوسری جانب صنعتی اداروں کی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے روزگار کی فراہمی میں کمی ایک اہم سبب ہے۔

 

    کسی شخص کو اس کی اہلیت وقابلیت کی سطح سے کم سطح کے کام پر لگانا اور جو کام ایک کثیر مقدار کے افراد کے کرنے کا ہوتا ہے، وہی کام لوگوں کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کرکے کم اور قلیل افراد سے لینا۔ جہاں ایک طرف لیبر لاز کے خلاف ہے تو وہیں اس وجہ سے بہت سے ہنر مند افراد ڈگری تھامے بیکار رہتے ہیں۔

 

     بے روزگاری کا ایک سبب مہارت کی کمی ہے۔آج کل نوجوان طبقہ جس کسی شعبے کی طرف رجوع کرتا ہے وہ سرسری تعلیم حاصل کرکے فوراً بعد نوکری کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ کسی بھی شعبہ میں اختصاص اور مہارت نہایت اہم اور ضروری ہے۔ غیر مستقل مزاجی اور کسی ایک جگہ کام نہ کرنا، بلکہ ایک نوکری سے استعفیٰ دیکر دوسری نوکری کی تلاش میں لگ جانا اور اس کو عادت بنا لینا بھی بے روزگاری کا سبب ہے۔

   

نوجوانوں کو ابتدائی تعلیم کے بعد کوئی بہتر رہنمائی نہیں ملتی کہ، مارکیٹ لیول پر کس قسم کی جابز اور بزنس کی مانگ زیادہ ہے اور جس نوجوان کے ہاتھ میں ڈگری آجائے وہ بڑی جاب کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور نچلی سطح کی جاب میں عار محسوس کرتا ہے۔ اپنے علاقے،ملک اور معاشرے کے افراد کے بجائے دوسرے علاقوں اور ممالک کے افراد کو نوکریاں دینا کسی بھی علاقے کے اندر بے روزگاری کا سبب بن سکتا ہے۔ان کے علاوہ کساد بازاری، موسموں کا تغیّر، ملکوں کی باہمی جنگیں، سستی وکسل مندی اور والدین کی کمائی پر قناعت اور دیگر عالمی معاشی اسباب بھی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

   

اب میں نقصانات کی بات کروں تو بے روزگاری کے کچھ نقصانات تو فرد سے متعلق ہیں۔ مثلاً: بے روزگار شخص کو زندگی گزارنے کے لیے آمدنی نہیں ملتی۔ حرکت وعمل نہ کرنے کی وجہ سے سستی اور کاہلی کا عادی بن جاتا ہے۔ جسمانی و نفسیاتی پریشانیوں اور ڈپریشن کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسا انسان بسا اوقات جرائم کی راہ پر بھی لگ جاتا ہے اور لگے بھی ہے۔ اس طرح کے کئی واقعات ہمیں سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی طرح نااہلی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔اپنی فیملی اور گھر والوں کی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر رہتا ہے اور دوسرے افراد کے لیے بوجھ اور دردِ سر بن جاتا ہے۔

  

  بے روزگاری کا اثر ایک فرد کے ساتھ معاشرے پر بھی ہوتا ہے۔ مثلاََ: بے روزگاری، مصنوعات کی پیداوار میں کمی اور توانائیوں میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ معاشرے میں لوٹ مار اور چوری ڈکیتی کا سبب بنتی ہے۔بھیک جیسی لعنت کو پیدا کرتی ہے۔نوجوان طبقہ دوسرے ممالک کی طرف جانا شروع کردیتا ہے اور بے روزگاری کسی بھی ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن کر عالمی سطح پر اس کے اثر ورسوخ اور شہرت کو نقصان پہنچاتی ہے۔

   

بے روزگاری کا اسلامی رو سے حل دیکھا جائے۔اسلام کی اقتصادی ومعاشی تعلیمات پر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے جہاں معاشی سرگرمیوں سے متعلق مکمل ہدایات دی ہے، وہیں اسلام نے بے روزگاری کے علاج اور حل کے لیے بھی کئی قوانین اور تعلیمات فراہم کی ہے۔جن پر عمل پیرا ہو کر معاشرے کو بہتر آئیڈیل بنایا جا سکتا ہے۔ وہ تعلیمات، طریقے اور قوانین کو بے روزگاری کے وقوع سے پہلے ہی اپنانے ضروری ہے۔ تاکہ، بے روزگاری کی مصیبت سِرے سے واقع ہی نہ ہو۔ اس قسم کی اسلامی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ، اسلام یہ چاہتا ہے کہ، مسلمان معاشرے کا فرد اپنی معاشی ضروریات میں دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے خود ہی معاشی کوششیں کرے، بلکہ خاندان کے جو دوسرے افراد کمزور ہیں، جیسے: عورت اور بچے، ان کی ذمّہ داری ور بوجھ بھی یہی شخص اٹھائے۔

  

اس سلسلے میں قرآن وحدیث میں عمل ومحنت کرنے اور معاش و رزق کے حصول کی کوشش کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسی طرح احادیث میں بھی سرورِ دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حلال رزق کمانے کی فضیلت بیان فرما کر ترغیب دی ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے حلال رزق کمانے کو دوسرے درجے کا فرض قرار دیا۔ ایک حدیث میں ہے کہ، حلال رزق کمانا ایسا ہے جیسا بہادروں سے مقابلہ کرنا اور جس نے حلال کی طلب میں گھر سے دور رات گزاری تو اس کی رات مغفرت کے ساتھ گزری۔

   

اب اسلامی حوالے سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ، اگر معاشرہ بے روزگاری کی مصیبت میں مبتلا ہوچکا ہے۔ تو اس سے خلاصی کیسے حاصل کی جائے؟ تو اس کے لئے اسلام یہ کہتا ہےکہ، حکومت بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے۔ سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں طلبِ حلال کی اہمیت اور مانگنے کی مذمت بیان فرمائی، وہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو روزگار کے مواقع کی طرف بھی رہنمائی فرمائی ہے۔اس سلسلے میں یہاں ایک روایت بیان کی جاتی کہ، ایک صحابی نے اپنی کسی حاجت کے لیے سوال کیا۔ تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ، تمہارے گھر میں کچھ موجود ہے؟ اس شخص نے عرض کیا کہ، جی ہاں ایک چادر اور ایک پیالہ ہے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے دونوں چیزیں منگوا کر مجلس میں دو درہم کے عوض فروخت کرکے اس شخص سے فرمایا کہ، ایک درہم سے گھر والوں کے لیے کھانا لے لو اور دوسرے سے کلہاڑی خرید لو۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خود ہی کلہاڑی کا دستہ لگایا

 

اور صحابی کو لکڑیاں کاٹنے کے کام کا حکم دیا۔جب وہ پندرہ دنوں کے بعد آیا تو دس درہم کما چکا تھا۔ اسلامی تعلیمات سے یہ رہنمائی بھی ملتی ہے کہ، حکومت کو چاہیئے کہ، وہ زکٰوۃ اور خراج کا نظام درست کرے اور اس سے مستحق لوگوں کی امداد اور بے روزگاروں کے لیے روزگار فراہم کیا جائے۔ اور یہاں سے یہ سبق ملتا ہے کہ، کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا رزق حلال کے حصول کی خاطر اٹھنے والا ہر قدم بڑا ہوتا ہے اور مزدور کا ہاتھ خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ اس لیے کام میں چھپی عظمت کو جان کر آگے بڑھنا ہی معاشرے کو تنگ نظری سے نکال کر خوش حالی کی جانب لے جا سکتا ہے۔

   

بے روزگاری کے خاتمے کے لیے چھوٹے کاروبار قائم کرنا آج کی ضرورت ہے اور چھوٹا کاروبار حکومت کی معاونت کے بنا قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ، بے روزگاروں اور عاجز لوگوں کو قرض حسنہ فراہم کرے، تاکہ وہ اپنا کوئی کاروبار اور تجارت کرسکے۔

 

  

  سودی نظام اور رقم پر رقم لینے کے ناجائز طریقوں اور سودی بینکوں سے توبہ کرلے اور غرر و جوے پر مبنی نظام تجارت کی اصلاح کرلے۔ کیونکہ سود،جوا اور سٹہ معاشی بحران کا ایک بنیادی سبب ہے۔ اسلام کی معاشی نظام نا صرف ایک فرد کی معاشی ضروریات کو پورا کرتا ہے بلکہ، وہ معاشرے میں دولت کی تقسیم اور عدل کو قائم کرنے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس سے معاشرہ آہستہ آہستہ بہتر آئیڈیل بننا شروع ہو جاتا ہے۔

 

 

حافظ جمال الدین رحمانی

تخصص فی کلیۃ الدعوہ جامعۃالرشید کراچی

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs