والدین کا احترام

March 18, 2022 2 years ago 1 Comment

دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے ۔اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے ۔مثلاً جب کبھی اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف توجہ دلانا چاہی ہے اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تعلیم دی ہے ۔سورۃ لقمان:14(ترجمہ)اے بندوتم میرا(اللہ کا) شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔

یا د رکھئے کہ جس طرح سے اللہ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں ۔انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں ۔ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی گی ہے

۔سورۃ الاحقاف 15-16(ترجمہ)اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے

،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا ،اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لائوں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا ۔میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فر ما لیتے ہیں اور جن کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں ،(یہ) جنتی لوگوں میں ہیں ۔اس سچے وعدے کے مطابق جوان سے کیا جاتا تھا ۔والدین سے نافرمانی کرنے والو ں کے لئے گھاٹا ہی گھاٹاہے ۔سورۃ الاحقاف:17-18(ترجمہ)اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا ،تم مجھ سے یہی کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد پھر زندہ کیا جائوں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں ،وہ دونوں والدین جناب باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے ،وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ،یہ لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپا ہو چکا ہے اور جنوں اور انسانوں کی ان امتوں میں شامل ہو گئے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ،یقینا وہ تھے ہی گھاٹا اٹھانے والے ۔

اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بھی کہا کہ:صل امک ثم امک ثم امک ثم اباک ثم ابافاناک۔’’تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرو، پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔پھر اسکے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(مظہری)

ماں کے ساتھ اس طرح کا خاص حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم اللہ تعالیٰ نے کئی وجوہات کی بنا پر دیا ہے۔

 

1)بچہ کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سے۔

2)بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور نشو نما کے لئے اس کے بدن سے بچے کو غذادی جاتی ہے۔3) ہر وقت بچہ کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا ۔4)ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے ،نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بچپن کی تعلیم و تربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے ۔دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم مائوں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔

 

واضح ہے کہ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں ۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں ،بہت ساری مائیں بچو ں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھر یلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا دیتی ہیں ۔جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ایسی مائیں اللہ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرتی ہیں ،سورۃ النسائ:34

(ترجمہ)مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ،پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار۔(مردوں کی) غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔

 

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں دی ہیں ۔اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں ۔کیونکہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقا اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے ۔ایسی مائوں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایسی مائوں کا اجر کم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ خاوند کو اسکے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تبا ہ و برباد کر تی ہیں ۔کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے آخری حصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں۔جب وہ خود اپنے پیدا کئے ہوئے مسائل میں گھِر کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے

۔ سورۃ الفاطر:43(ترجمہ)کسی بھی بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو مل کر رہتا ہے

۔سورۃ الاسراء :23-24-25میں والدین کے ادب واحترام کے لئے مزید تفصیل دی گئی ہے ۔ (ترجمہ)اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا ،

نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پر وردگار !ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ۔جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

 

ا ن آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و احترام کی بات کی ہے ۔ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان چڑھایا ،ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پوری کرتے تھے ۔مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ ،اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔اگر چہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو جائیں۔کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے ، اللہ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں:

۔1)والدین کو انکی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے۔

2)ان کے سامنے چلا کر نہیں بولنا چاہئے

۔3)انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہمدردی کے انداز میں ان سے بات کرنی چاہئے

۔4)والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرمانبرداری اور نرمی سے کرنا چاہئے۔ انکے ساتھ رحمدلی کا معاملہ ہونا چاہئے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہئے ،محض دکھانے کے لئے روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔

5)ہمیں والدین کے لئے دعا کرنی چاہئے، اے اللہ تعالیٰ میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن میں مجھ پر رحم و کرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہئے ،ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے ۔اور اسکی تلقین فرمائی ہے

۔6)سورۃ الاسراء کی آیت نمبر25میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی ہے کہ اگر کسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں جو لا پرواہی کی وجہ سے نہیں بلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہو جائے تو اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں سزا نہ دے گا ۔بشرطیکہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں

،اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔

 

 

معظم شہزاد ۔تخصص فی الدعوہ جامعة الرشید کراچی  

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent Blogs